شہر ء ذات میں خود کو ڈھونڈنے نکلے
ہم اپنے آپ سے کتنے بیگانے نکلے
دشت میں بکھری ہوئی ریت کی مانند
کتنے بکھرے ہوۓ اجڑے سے دیوانے نکلے
دیکھا جس نے بھی میرے درد کا عالم
تجھ سے منسوب میری الفت کے فسانے نکلے
یہ چاند یہ غزل یہ تنہائی میری
ہر سمت تیری یادوں کے بہانے نکلے
اک شخص نے لمحوں میں گنوایا تھا عنبر
اب دیکھ ڈھونڈنے مجھے کتنے زمانے نکلے