کوئی ہم خیال ہے نہ کوئی ہم رقاب
غم جاں ہے اور تنہائیوں کا عذاب
پھیلی ہوئی ہے چار سو نجم کی فضا
بنالی ہے اداسیوں نے دل میں جگہ
اے شہر بے وفا کیا کہیں تجھے
کہ تیری بے وفائیوں سے پیار ہے مجھے
تیری ہر خواہش کو ہم نے بندگی جانا
مگر تیری بے حسی نے ہم کو مار ڈالا