تھے مشہور زمانہ جانے کہاں گمنام ہوئے
نہ رکھا قدم شہر تنہائی میں پھر کیوں بدنام ہوئے
اداس رہنے لگا ہے وہ بھی ہمارے بعد
اس کی تنہائی کے قصے سرعام ہوئے
محبت تھی اسے بھی کسی سے کبھی
چرچے یہ شہر میں اب عام ہوئے
میں زندگی کی بھول بھلیوں میں پڑا رہا
کسی کا مقدر یہ چھلکتے جام ہوئے
نہ تھا اجنبی وہ اس شہر سے لوگوں
کیو ں منقطع رابطے اس کے تمام ہوئے
میں بھی تھا کبھی اس کی زلفوں کا اسیر
بہت د یر ہوئی مگر، دل پہ سایہ شام ہوئے
سرتاپاء سراپائہ حسن تھا وہ لوگوں
آنکھ بھر کے دیکھا تو حسن قاتل کے غلام ہوئے
کسی اور کے پہلو میں بیٹھا محفل سجائے ہوئے
جس کی خاطر شہر تنہائی میں بدنام ہوئے