ورق ورق میں حرف سجایا کرتا ہوں
لگتا ہے دیوار سے سر ٹکرایا کرتا ہوں
اس کے ملنے کی امید تو اب بر آتی نہیں
یاد میں اسکی، خود کو تڑپایا کرتا ہوں
شاید، شہر خاموشاں میں ہوگا ساتھ ہمارا
اسی آس پہ میں دل کو سمجھایا کرتا ہوں
سنا تھا دیواروں کے بھی ہوتے ہیں کان
اپنا غم، میں بس انہیں سنایا کرتا ہوں
رواں ہو جاتے ہیں، پتھروں سے آنسو
شب تنہائی میں، انہیں جب رلایا کرتا ہوں
جاوید کون کہتا ہے کہ میں ہوں تنہا تنہا
میں تو تنہائی میں بھی شہر بسایا کرتا ہوں