صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے

Poet: فریاد آزر By: Akbar, Lahore

صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے

اب تو ہر شہر ہے اک شہر طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے

ایک لمحہ بھی ٹھہرتا نہیں لمحہ کوئی
پیش منظر پس منظر میں بدل جاتا ہے

نقش ابھرتا ہے امیدوں کا فلک پر کوئی
اور پھر دھند کی چادر میں بدل جاتا ہے

بند ہو جاتا ہے کوزے میں کبھی دریا بھی
اور کبھی قطرہ سمندر میں بدل جاتا ہے

اپنے مفہوم پہ پڑتی نظر جب اس کی
لفظ اچانک بت ششدر میں بدل جاتا ہے

Rate it:
Views: 588
04 Nov, 2021