صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
Poet: فریاد آزر By: Akbar, Lahoreصبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے 
 یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے 
 
 اب تو ہر شہر ہے اک شہر طلسمی کہ جہاں 
 جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے 
 
 ایک لمحہ بھی ٹھہرتا نہیں لمحہ کوئی 
 پیش منظر پس منظر میں بدل جاتا ہے 
 
 نقش ابھرتا ہے امیدوں کا فلک پر کوئی 
 اور پھر دھند کی چادر میں بدل جاتا ہے 
 
 بند ہو جاتا ہے کوزے میں کبھی دریا بھی 
 اور کبھی قطرہ سمندر میں بدل جاتا ہے 
 
 اپنے مفہوم پہ پڑتی نظر جب اس کی 
 لفظ اچانک بت ششدر میں بدل جاتا ہے
More Sad Poetry







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 