صدائے خامشی پھیلی ہوئی ہے
فضا میں سنسنی پھیلی ہوئی ہے
کہاں تک سلسلہ ہے کُن فکاں کا
کہاں تک زندگی پھیلی ہوئی ہے
رگِ جاں سے جہانِ دیگراں تک
کسی کی دلبری پھیلی ہوئی ہے
حصارِ عشق میں دو سائے رقصاں
حرم میں چاندنی پھیلی ہوئی ہے
سراسر آسماں پھیلا ہُوا ہے
زمیں تو سرسری پھیلی ہوئی ہے
لبوں پر لگ چکے ہیں قُفل جیسے
رگوں میں بے حسی پھیلی ہوئی ہے
اُسی اِک اَن کہی کا دُکھ ہے نازش
وہی اِک اَن کہی پھیلی ہوئی ہے