صداقتیں بھی بدلتی ہیں اپنے عہد کے ساتھ
حیات کا یہ رویہ بھی گیان میں رکھنا
یہ اشک اشکِ ندامت ہے میرے دشمن کا
اسے سجا کے کسی آسمان میں رکھنا
ہوا کو اپنے موافق بنا کے رخ بدلے
اک ایسا وصف بھی تم اپنے بادباں میں رکھنا
جو دشمنوں کو ادا دوستی کی سکھلا دے
اک ایسا تیر بھی اپنی کمان میں رکھنا