صدف اس نے بنا ڈالا ہے
وسعت دے کے ساگر کی
مجھے پاتال بھی بخشا
سخن کی دے کے جاگیریں
سنہرا جال بھی بخشا
مگر اک پیاس صحرا کی
مرے مقسوم میں لکھ دی
مجھے درکار تھا جو کہ
وہ قطرہ_ ابرینساں کا
میسر ہو نہیں پایا
کہ میری پیاس بجھ جاتی
مری جو پیاس بجھ جاتی
تو قطرے کو بدل کر میں
کوئی گوہر بنا دیتی
مگر افسوس کہ مجھ کو
وہ قطرہ ابر_ ینساں کا
میسر ہو نہیں پایا
میسر ہو نہیں پایا