صلہ وفاؤں کا کچھ تو ملنا ہی تھا
آج نہیں تو کل دلوں کو بکھرنا ہی تھا
کوئی الزام ہوتا ، یا کوئی تعریف ہوتی
اسے کہتے وقت حدوں سے گزرنا ہی تھا
کیا ہوا ؟ جو آج آخری بھرم ٹوٹ گیا
جب ریت کے محل تھے تو ُانہیں مٹی میں ملنا ہی تھا
کیا ہوا ؟ جو آج پھر تنہا رہ گیے ہم لکی
تنہایوں کو بھی تو کسی کا ساتھ ملنا ہی تھا
گر گیے یو ہی آنسو دعا مانگتے مانگتے
جب ہاتھ ُاٹھائے تھے تو کچھ تحفہ تو ملنا ہی تھا
سہ لیاہنس کر ُاس کا ہر الزام اس ُامید پر لکی
کہ اگر خدا ہے تو ُاسے پھر لوٹ کے آنا ہی تھا