اثر اسکو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فضا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
نارسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرض مضطرب اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا ہ