ضابطہ وفا پر پورے نہ اتر سکے
یوں ملتے دیکھا غیر سے نہ مکر سکے
ملتا تھا کسی وسیلے سے جو مانگتے
آخر کیا ہوا جو صبر نہ کر سکے
دین میں شریعت لازم ہے
تقاضے اکثر ہم پورے نہ کر سکے
اس مکتب کا بھی عجیب طریقہ ہے
وہی آتا ہے امتحان جو یاد نہ کر سکے
رستہ ایک ہی ہے منزل کی جانب
دو کشتیوں کے سوار ساحل پر نہ اتر سکے
لذت فاقہ مستی کیا خوب ہے
مائل تو ہوئے غیر سے آرزو نہ کر سکے