دیکھوں تو مرا سایہ بھی مجھ سے جدا ملے
سوچوں تو ہر کسی سے مرا سلسلہ ملے
شہرِبےوفا میں اب کوئی اہلِ وفا کہاں؟
ہم سے ملے بھی تو وہی بےوفا ملے
فرصت کسے کہ جو مرے حالات پوچھے
ہر شخص اپنے بارے میں سوچتا ملے
کہنے کو جدا ہے مجھ سے لیکن
وہ مری رگوں میں گونجتا ملے
یوں بھی ملی مجھ کو ضبطِ غم کی داد
جب بھی ملے وہ سر جھکائے ہوئے ملے