یہاں بکتے ہیں جسم دو دو آنوں میں
شراب بکتی ہے جیسے شراب خانوں میں
ضمیر بکتے ہیں ادائیں بکتی ہیں
پیار ملتا نہیں ان دکانوں میں
ضمیر فروشوں کو سرفروش یا رب کر دے
کہ سکتے ندامت بھی نہیں انسانوں میں
خدا کرے آہیں عرش تک جائیں خدا کرے
اور ترانے میرے پہنچیں آسمانوں میں
باب دل یہ سوچ کر بند کر لیا عتاب
کہ اب کون آئے گا ان ویرانوں میں