ضمیر کی آواز

Poet: Irfan Ali By: Irfan Ali, Rawalpindi

قبروں پہ کھڑا تو مسکراتا رہا
تمسخر اپنی تقدیر کا اڑاتا رہا
ابد کی نیند سونے والے نادان
اپنے ہی ضمیر کو تو سلاتا ر ہا

دیکھ تو اپنے رب کی مرضی
ناصح ہر دم تجھے سمجھاتا رہا ہے
دوست سبھی دشمن ہیں تیرے
کوئی خوف ِخدا یاد دلاتا رہا

سایہ رحمت بنا جو تیرا ضمیر
عمرتمام جس سے جی چرا تا رہا
چنی جو راہ ہلاکت کی آخر
ضمیر ترا بس چیختا چلاتا رہا

ایمان گیا تو انسان بھی گیا عرفان
اک قبر پہ لکھا شعر بہت رلاتا رہا
 

Rate it:
Views: 661
27 Feb, 2012