قبروں پہ کھڑا تو مسکراتا رہا
تمسخر اپنی تقدیر کا اڑاتا رہا
ابد کی نیند سونے والے نادان
اپنے ہی ضمیر کو تو سلاتا ر ہا
دیکھ تو اپنے رب کی مرضی
ناصح ہر دم تجھے سمجھاتا رہا ہے
دوست سبھی دشمن ہیں تیرے
کوئی خوف ِخدا یاد دلاتا رہا
سایہ رحمت بنا جو تیرا ضمیر
عمرتمام جس سے جی چرا تا رہا
چنی جو راہ ہلاکت کی آخر
ضمیر ترا بس چیختا چلاتا رہا
ایمان گیا تو انسان بھی گیا عرفان
اک قبر پہ لکھا شعر بہت رلاتا رہا