نہ وہ روکنے سے بھی رُک سکے بلا اِنتظار چلے گیۓ
لیۓ دِل میں دید کی آرزوُ تِرے بیقرار چلے گیۓ
تِرا حق تھا میرے وجود پر نہ توُ پا سکا مِری روُح کو
تِرے ظرف سے جو بلند تھے سبھی اِختیار چلے گیۓ
یہ تلاش تیری فضوُل ہے یہاں کویٔ اہلِ وفا نہیں
،، جنھیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہگار چلے گیۓ ،،
تِرے واسطے جو مذاق تھا مِری زندگی وہ بدل گیا
توُ گیا تو جو مِرے رُخ پہ تھے وہ سبھی نکھار چلے گیۓ
جو عزیز رکھتے تھے جان کو وہ قدم نہ آگے بڑھا سکے
جنھیں حرفِ حق پہ یقین تھا وہی سوُۓ دار چلے گیۓ
وہ جو لوگ شوخ و شریر تھے تِری چاہتوں کے اسیر تھے
تِرے ذہن پر،تِری سوچ پر جو بنے تھے بار چلے گیے