طریقے بدل بدل کے وہ آزماتا رہا مجھے
بچھڑ کے بھی عمر بھر یاد آتا رہا مجھے
رنجش تھی یا خلش، شاید کہ ہو یہ عادت
تعمیر کر کے میری وہ مٹاتا رہا مجھے
طالب تھا قربتوں کا مگر معاملہ عجیب تھا
قربتیں بڑھا کے گنواتا رہا مجھے
ہمارے بغیر وہ بھی نہ چین پا سکا
تھا اناء پرست، اناء دکھاتا رہا مجھے
تلخی ء حالات بھی کچھ کم نہ تھے مگر
اور وقت بھی مسلسل تھکاتا رہا مجھے
بکھرا بہت تھا وہ ٹوٹا سا تھا کہ
قصے مسافتوں کے سناتا رہا مجھے
ہم بھی اشک تھے گویا اس کی چشم که
سما نہ سکا تو گراتا رہا مجھے
ادھوری محبتوں کے عنبر بھرم کی طرح
میں اسے اور وہ نبھاتا رہا مجھے