طوفان مقابل ہے نہ دھارا ہے مقابل
حیرت ہے کہ خاموش کنارہ ہے مقابل
اِن جشن مناتے ہوئے لوگوں کو خبر کیا
یہ جنگ تو کچھ سوچ کے ہارا ہے مقابل
اِس شہر سے اب ترک ِ سکونت ہی بھلی ہے
اِس شہر کا ہر شخص ہمارا ہے مقابل
اب صرصر ِ حالات کا رُخ تیری طرف ہے
یہ تیری ہزیمت کا اشارہ ہے مقابل
ہرچند کہ وہ دشمن ِ ایماں ہے ہمارا
لیکن ہمیں ہر حال میں پیارا ہے مقابل
تُم جیسے خدوخال کسی اور کے کب ہیں
وہ کون حسیں ہے جو تمہارا ہے مقابل
تسخیر ِ مہ و مہر تو آسان ہے لیکن
یاور مری قسمت کا ستارہ ہے مقابل