طوفان ناکامی کا آڑے آتا ہے ضرور
دیر سہی, ہنر اپنا لوہامنواتا ہے ضرور
جب اپنے دل پہ پڑتی ہے نا ضرب
پھر وہ کسی کا تڑپنا یاد آتا ہے ضرور
آج کا مُحسن لاکھ عاجزی دکھائے
دل ہی دل میں اِتراتا ہے ضرور
موسمی پرندے سے اب کیا شکایت
بدلتے ہی موسم چلا جاتا ہے ضرور
وقت سے پہلے نہ وقت کے بعد, آدمی
قسمت کا لکھا وقت پہ پاتا ہے ضرور
کسی کو بُرا کچھ کہا نہ کرو ایمانؔ
اپنا کہا ہوا خود پہ آتا ہے ضرور