ظلم یہ کیسا جدائی نے مچا رکھا ہے
رو رو کر اَشکوں کا دریا بہا رکھا ہے
ڈبائے خودی کو غم میں روئے ہوں پیارے
جبھی یہ حال عاشقوں سا بنا رکھا ہے
اجڑ گئے آشیانے جن کو سجایا تھا میں نے
اب ان راہوں کو آہوں سے سجا رکھا ہے
زیادتیِ قربت مجھ کو مہنگی پڑ گئی جنید
اب سارا ماحول سوگوار بنا رکھا ہے
میں اشکوں کو چھپائے ہوں پردے میں جنید
ڈھال اپنی لفظوں کو بنا رکھا ہے
آؤ چلتے ہیں راہ ماروں کے شہر میں جنید
امن کے شہر میں ٹھکانہ اجاڑ رکھا ہے
میں تلخ حقیقت سے آشنا ہوں جنید
چھوڑ دو رونا آنسوؤں میں کیا رکھا ہے