روز مقتل میں کٹے جاتے ہیں پیر و نوجواں
دل جگر نوحہ کناں ہے دیکھ کر آہ و فغاں
موڑنا ہوگا رُ خِ طوفانِ ظُلمت کو ہمیں
بن نہ جائیں ہم کہیں اک روز عبرت کا نشاں
اپنے ہاتھوں سے ہی اپنوں کا لہو کرتے ہیں ہم
کیسے لکھے گا مورّخ یہ بیانک داستاں
انتشار و فتنہ و خون و خرابہ دیکھ کر
موت سے پہلے ہی انساں روز مرتا ہے یہاں
شہرِ و حشت کے مکینوں کے لئے ہے زیست اب
امتحاں در امتحاں در امتحاں در امتحاں
خون ِ دل دیکر بجھاﺅ اہلِ دل نفرت کی آگ
اُٹھ رہا ہے ہر طرف سے شر پسندی کا دھواں
آج کا یہ دور دورِ دانش و بینش ہے پر
ہم ہیں پتھر کے زمانے میں یہ ہوتا ہے گماں
خوابِ غفلت میں مسلماں سو رہے ہیں رات دن
دسترس میں اہلِ مغرب کے ہیں سورج ،کہکشاں
احترام ِآدمیّت کا جو ہوگا راج تو
امن و خوشحالی سکو ں والا بنے گا یہ جہاں
کون کشتی کو نکالے گا بھنور سے دوستو
ایک بھی رہبر ہمارے ہاں نہیں ہے مہرباں
ہے تجھے حاجت زمانے کو بدلنے کی تو پھر
جان بھی جائے مگر سچ کو ہمیشہ کر بیاں
نفرتوں کو بھول کر اس دہر کے ہر گام پر
ہر کوئی یارب ہمیشہ دے محبت کی اذاں