عجائب خانہ
Poet: Shakira Nandini By: Shakira Nandini, Oportoمرا وجود
دیکھتے ہی دیکھتے
ایک عجائب خانے میں ڈھل رہا ہے
کہ میرے لاشعور نے
آثار قدیمہ کی نادر عنائتوں کو
چھپا کے مجھ سے
مجھ ہی میں جمع کردیا ہے
یہاں کہیں کسی ریک میں
میرے حنوط شدہ حرف اور لمحے
پڑے ہوئے ہیں
جنہیں نجانے کو ن سا مصالحہ لگادیا گیا ہے
کہ میرے جسم کی حرارت سے بھی وہ
گل نہیں رہے ہیں
ان الماریوں سے
مری ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے ساز کی
آواز آرہی ہے
یہ دیکھو اس شیلف میں
میری بچپن کی گڑیا کا
ٹوٹا ہواجسم سو رہا ہے
کہیں میری سنگھار میز کا آئینہ
بے رنگ ہوکر چٹخ گیا ہے
مگر اب بھی !!
میرے عذاب لمحوں کا
عکس دے رہا ہے
کہیں کسی سرمے دانی میں
شائد کبھی میں نے اپنی آنکھ چھوڑدی تھی
جو اس میں سے مجھے گھورتی ہے
اور میری زندگی !!
میرے زنگ آلود زیوروں میں
دب کے چیختی ہے
اور پائلوں کی آواز سے ڈر رہی ہے
ایک ٹوٹی ہوئی میری کنگھی سے
اب تک میرے بال الجھے ہوئی ہیں
اور کنارے پہ رکھی ہوئی
صراحی سے پیاس کی بو
رس رہی ہے
کسی گھڑیال کی ٹوٹی ہوئی سوئی
ایک عذاب لمحے میں مرتعش ہے
اور قریب ہی
میرے جذبوں کی تالاب سے
باس اٹھ رہی ہے
اور تماش بین، جوق در جوق
میرے عجائب خانے کو
دیکھنے کو آ رہے ہیں
اِن میں سے کوئی تماش بین
اس عجائب خانے کی
سانس لیتی ہوئی موت کو
تضحیک سے دیکھ کر
نظر انداز کرتا ہوا جا رہا ہے
اور کوئی عجائبات کا شوقین
ان تمام اشیاء پہ تحقیق کرکے
اپنے آپ کو ثابت کرنا چاہتا ہے
مگر ان کو دھول میں پڑی
تاریخ کی الجھی ہوئی ڈورکا
کوئی سرانہیں مل رہا ہے
اور میں حیران کھڑی ہوئی
اپنے اسی ایک سرے کے ملنے کی منتظر ہوں
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






