عجب نہیں، رستے میں کہیں مل جائے
بھرا، پُرانا نہیں، زخم نیا مل جائے
ابھی تو لب پہ محبت کا نام آیا تھا
عجب نہیں، زبان پھر سے کہیں سِل جائے
بچھڑے تواُس سے، اک زمانہ ہُوا ہے لیکن
عجب نہیں، وہ پھر سے، گُھل مل جائے
کرنے وہ پھر سے نکلا ہے، وفا کی تلاش
عجب نہیں، بیوفا کو وفا مل جائے
عجب تو یہ ہو، کہ ہم پھر سے، اُس پہ مرمٹیں
اُس پہ غضب ہو ، کہ وہ بھی، ہم کو مل جائے