عجب یہ زندگی کے سلسلے ہیں
خوشی جو چاہی تو غم ملے ہیں
بہار موسم کہ چھا رہا ہے
گلاب سارے کہ اَدھ کِھلے ہیں
ہجر کے لمحے طویل تر ہیں
نصیب اپنے میں رتجگے ہیں
اِک عرصہ آنکھوں سے خوں بہا ہے
داغ سینے کے تب دُھلے ہیں
چہ ہجر تیرے نے جان لے لی
پر عہد اپنے اٹل رہے ہیں
کیوں تڑپتے ہیں بچھڑے پنچھی
راز مجھ پر ٰٰیہ اب کُھلے ہیں
کیا فتح ہے شکست کیا ہے
ضمیر لشکر تو سب ملے ہیں