درد بِکتا عجیب لگتا ہے
اپنا رِشتہ عجیب لگتا ہے
میں نہ کر پاؤں گا وفا تُجھ سے
اشک ہنستا عجیب لگتا ہے
جس کو ہر چیز سونپ دی جائے
پھر وہ ڈستا عجیب لگتا ہے
نہ دیکھ قاتلانہ نظروں سے
زخم بہتا عجیب لگتا ہے
تیرے ہر لفظ میں بناوٹ ہے
بات کرتا عجیب لگتا ہے
جس کی ہر ہر ادا نرالی ہو
وہی مرتا عجیب لگتا ہے
کیسے ہم بَیچ دیں نیلامی میں
گوہر سستا عجیب لگتا ہے