عدم کے راہ وہ اس خاموشی سے جاتا ہے
ذرا سی بات کا کوئی اتنا برا مناتا ہے
ذہن کے کسی گوشے میں نہ تھا یوں ہو گی جدائی
عارضی جدائی جسے نہ تھی اب ہمیشہ کا غم کھاتا ہے
شاید ختم ہی ہوگئی تھی لگن دنیا میں رہنے کی
ورنہ کون اپنا درد کثیر یوں چھپاتا ہے
جس کے تن میں لہو کا دریا پھوٹ رہا تھا
قابل رشک ہے پھر بھی مسکراتا ہے
جن پہ تکیہ تھا وہ بھی چھوڑ گئے غم کی اس گھڑی میں
غم بانٹنے کے وقت کوئی یوں چھوڑ کہ جاتا ہے
خدا سلامت رکھے سب بچوں پر ماں کا سایہ
ماں نہ ہو جن کی ان کے ناز و نخرے کون اٹھاتا ہے