ہر بات کا حساب ہے
یہ زندگی عذاب ہے
پیاسے ہونٹ بجھ گئے
ہر لمحہ اک سراب ہے
بدلے موسم تو سکوں ملے
اک لمبی سسکتی رات ہے
سب جگنو لوٹ کے چل دیے
اب اندھیروں کی برسات ہے
کچھ جلتی بجھتی راکھ میں
چنگاریوں کا سیلاب ہے
پتہ ملے تو سفر کریں
اب منزل ایک خواب ہے