ہجوم ِ خوف جاں کو آئے دشتِ اضطراب ٹوٹ پڑے
میں دل کی بات جو زباںپہ لاؤں تو عذاب ٹوٹ پڑے
بہت چرچے تھے کچھ منافقوں کی دریا دلی کے
طوفان کیا اٹھا سب کے سب بے نقاب ٹوٹ پرڑے
جل گئے تھے ایک لمحہ میں حسن کی حدت سے
صورتِ مہ کامل پر سبھی محفل کے حجاب ٹوٹ پڑے
وقت کی سازش کہ قطرہ محال تھاخشک سالی میں
کبھی بستی ڈوب گئ کہ -- اچانک سیلاب ٹوٹ پڑے
عدن! کل شب پلایا تھا بھر بھر کے جام ساقی نے
کل شب میکدے میں سبھی خانہ خراب-- ٹوٹ پڑے