جو ان گلاب سی آنکھوں کو خواب کر کے گیا
وہ میرے شام و سحر پھر عذاب کر کے گیا
تمام شہر نے آنکھوں کے رنگ جان لیے
وہ میرے چہرے کو ایسی کتاب کر کے گیا
میرے دریچے میں اب چاند بھی نہیں رکتا
وہ مجھ پے سارے ستم بے حساب کر کے گیا
میں آج اسکی رفاقت کے موسموں میں رہی
وہ میری ساری خزائیں گلاب کر کے گیا
میں نے اسکے قدموں کی مٹی سے اپنی مانگ بھر لی
جو آج پھر سپنے سراب کر کے گیا
ہوا سے سانس کی مقروض رہی اب تک
وہ اپنے قرض کو میرا نصاب کر کے گیا