پل بھر کو آیا تھا کہ عمر بیت گئی
کچھ بھی نہ پایا تھا کہ عمر بیت گئی
کیسے طے ہوا سفر، یہ نا پوچھیے
فقط قدم اٹھایا تھا کہ عمر بیت گئی
اک عمر مئتظر رہا میں اجالوں کا
دن ہونے کو آیا تھا کہ عمر بیت گئی
بےسبب بھٹکتا رہا یونہی در بدر
نشانِ راہ نا پایا تھا کہ عمر بیت گئی
میری عبادتوں پر وحید اتنی گواہی دینا
ابھی سر ہی جھکایا تھا کہ عمر بیت گئی