عمر کہتے ہیں جسے سانسوں کی اک زنجیر ہے
Poet: سید مجتبی داودی By: سید مجتبی داودی, Karachiعمر کہتے ہیں جسے سانسوں کی اک زنجیر ہے
چشم بینا میں ہر اک لمحے نئی تصویر ہے
زندگی انعام کی صورت میں اک تعزیر ہے
جو کبھی دیکھا نہ تھا اس خواب کی تعبیر ہے
جو پَس پردہ ہے اس کو چاہے جو کہہ لیجئے
پیش جو آئے وہی انسان کی تقدیر ہے
کوئی منظر یوں نہیں جس کا کہ پس منظر نہیں
ذات کا اظہار گویا ذات کی تشہیر ہے
رات خائف ہے کہ تحلیل سحر ہوجائے گی
صبح کو یہ فکر لاحق شام دامن گیر ہے
More Life Poetry






