زندگی جینا تنگدستی میں
ہے سفر ساگروں کا کشتی میں
ایک چنگاری کا تماشہ تھا
لگ گئ آگ سا ری بستی میں
رخ پہ گیسو گرا لئے اس نے
ڈھک گیا ماہتاب بد لی میں
ان کو دیکھا ، نطر سے چوم لیا
اور کیا کرتے جلدی جلدی میں
پھولوں پھولوں پہ منڈرائ تھی
آ گئے رنگ سارے تتلی میں
کل تھا زلفوں میں اک گلاب اس کی
اک انگو ٹھی ہے آج انگلی میں
چل پڑے ہیں ‘حسن‘ بھی سوئے حرم
عمر گزری ہے بت پرستی میں