باب عشق اب عنوان چاہتا ہے
اگتا گیا وحشی ویرانے سے اب مکان چاہتاہے
اک قیامت گذری پہر بھی خاموش رہے
دل اب رونا چاہتا ہے درد اب ذبان چاہتا ہے
تھک گیا دے دے کے پانی بنجر ذمین کو
کچھ تو ملے صلہ یہی اب کسان چاہتاہے
اک حد ھوتی ہے صبر کی بھی غیاث
جانے کیا ضد ہے اسکو جانے کیا اب آسمان چاہتا ہے