پھینک اُتارا پل میں ایسے
بیٹی ہو کر بوجھ تھا جیسے
اپنی بے بس جنس کا تاواں
کب تک بھرتی جائے
عورت مرتی جائے
کیسی یہ تقدیر ہے پائی
دام میں بڑھ کر اکثر بھائی
خدمت خاطر حاضر ہر دم
کیا کیا کرتی جائے
عورت مرتی جائے
جس کو مندر مان چلی تھی
اُس کو کوئی اور بھلی تھی
خوف ہے ہر دم کب چھوڑے گا
کب تک ڈرتی جائے
عورت مرتی جائے
کوکھ میں جس کا بوجھ اُٹھایا
فیض نہ اُس سے کچھ بھی پایا
باہر اک مُسکان سجا کرر
اندر سڑتی جائے
عورت مرتی جائے
انساں کی تزلیل یہ رسمیں
اظہر کر تبدیل یہ رسمیں
اپنی ان رسموں کی سولی
کب تک چڑھتی جائے
عورت مرتی جائے