عُذر آنے میں بھی ہے اور بُلاتے بھی نہیں
باعثِ ترکِ مُلاقات بتاتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگا بیٹھے ہیں
صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
ہو چُکا ترکِ تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جِنکو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں