تم سے بچھڑا تو جیتے جی مر جاؤں گا
ریزہ ریزہ ہو کے زمانے میں بکھر جاؤں گا
اک بار ہی کر لے اگر کلام وہ مجھ سے
میں جتنا بھی بگھڑا ہوں سدھر جاؤں گا
ابھی تک تو اس کے ملنے کی امید بندھی ہے
یہ آس بھی نہ رہی تو کدھر جاؤں گا
مجھے صرف میرے یار کا دیدار کر لینے دو
اس کے بعد کانٹوں پہ بھی کہو گے تو ٹھہر جاؤں گا
اگر تقدیر کی بے رحمی نے اسے چھپا لیا مجھ سے
فقیر بن کے تلاش یار میں گھر گھر جاؤں گا
وہ چاہ کر بھی امتیاز نہ بھلا سکے گی مجھے
میں اسی کا عکس بن کے اس میں اتر جاؤں گا