خالی زندگی کے شفاف ورق پر
خاکہِ مستقبلِ روشن بنا کر
لطف زندگی مجھے چکھا کر
جینے کی وجہ مجھے بتلا کر
اندھیروں سے مجھے نکال کر
مینارِ روشن پر مجھے چڑھا کر
طبیعت کو میری جلا کر
خام سے مجھے کندن بنا کر
کیوں کچھ کمی باقی لگتی ہے
سب ہے، پر یہ ترقی عجیب لگتی ہے
قریب مجھ کو ہر خوشی لگتی ہے
منزل پر ہوں، پر منزل بعید لگتی ہے
جدھر دیکھتا ہوں تو ہی تو ہے
تیرا چہرہ میرے روبرو ہے
محسوس تو مجھے ہوا بھر پور ہے
جیسے مجھ میں صرف تو ہی موجود ہے
پھر دل کیوں میرا مچل رہا ہے
پیاسا جیسے کوئی مر رہا ہے
درد سے میرا دم گھٹ رہا ہے
کیا سمجھوں یہ کیا ماجرا ہے
تفحصِ اضطراب بڑھا تو مجھ پر عیاں ہوا
تھا منشائے حیات ہی غازہِ ناکامی لگائے ہوا
جو تو تھا میری آنکھوں میں ہر پل چمکتا ہوا
وہ تو نہیں محض تیرے وجود کا عکس ہوا