عید کے دن بھی شرارے چمکے
نہ غبارے نہ غرارے چمکے
عید کے دن بھی شرارے چمکے
آگ چمکی ہے گلی کوچوں میں
جب بھی نفرت کےشرارے چمکے
شیخ چمکا جو کبھی منبر پر
شہر میں خون کے دھارے چمکے
ہم غریبوں کی تو اُڑ گئی گردن
جب امیروں کے اِشارے چمکے
رہنماوُں کی چمک کے آگے
کس میں ہمّت ہے کہ پیارے چمکے
جیتنے والے بھی کب چمکے ہیں
نہ ہی وہ لوگ جو ہارے چمکے
ہم تو چمکے نہ کسی بھی صورت
اور وہ پاوُں پسارے چمکے
جس نے بھی خواب سنوارے چمکا
کب یہاں نیند کے مارے چمکے
دل ہی جب بجھ گیا اُس کا یارو
وسیم اب کس کے سہارے چمکے