چھٹا غبارِ نظر تب کہیں نظر آیا
نظر فریب تھا سراب جو نظر آیا
زیست دشوار تھی آزار تھی ساتھ ترے
راہِ پُر خار سے گزرے تو پھر سمجھ آیا
غموں نے تیرے کسی جاہ کا رہنے نہ دیا
بڑی مشکل سے ہم نے دل کو اب ہے سمجھایا
نہیں معلوم مقدر تھا بے سرو ساماں ہونا
سب کے ہوتے ہوے خود کو دربدر پایا
اُس نے ڈھایا ہے ستم بار ہا جدای کا
اور خود ہم نے بھی اپنے پہ ظلم ہے ڈھایا
احمر وفا کے بدلے جو دھوکے ہزار دیتا رہا
خدا خبر اُس نے مزاج کیا پایا