وہ پیٹ پہ پتھر باندھےچلتے رہتے ہیں
جن ہاتھوں سے تاج محل بنتے رہتے ہیں
جن کو سایہ نہیں میسر کڑی دھوپ میں
یہی ہیں درخت جو سایہ کرتے رہتے ہیں
ان چراغوں میں روشنی نہیں ہوا کرتی
یہ لوگ اپنی ہی آگ میں جلتے رہتے ہیں
خاب کیا سجائیں یہ مفلس یا الہی
ان کی آنکھوں میں اشک بہتے رہتے ہیں
نہ چھیڑ انہیں تو اے تہذیب زمانہ
یہ لوگ ہر اک سے الجھتے رہتے ہیں
میں دروازے میں کھڑا دیکھ لیتا ہوں عرفان
میرے دوست جب گلی سے گزرتے رہتے ہیں