سفاک قاتل پھرتے ہیں بازاروں میں
اپنے دروازوں کو مقفل کر لو
بچے جو کھیل رہے ہیں
باہر گلیوں میں
انہیں گھروں کے اندر کرلو
مگر اک قاتل
بند دروازوں سے بھی
آ جاتا ہے
انسانیت کی بے بسی کا
مذاق اڑاتا ہے
روک نہیں سکتے اس کو
ناتواں ہاتھ
غربت اور بھوک کا
جب راج چھاتا ہے
اپنے چولہے کی آگ بجھا دو
خالی پانی کو ابلنے نہ دو
بھوک سے بلکتے بچوں کی
حسرت بھری آنکھوں پر
قدرت کو ترس آتا ہے