غزلوں میں غم و درد کا رس گھولنے والا
شاعر ہو تو پریوں کے بھی پر تولنے والا
وہ گھر سے جو نکلے تو معطّر ہو فضا بھی
خلوت میں وہ خُوشبو کی رسن کھولنے والا
دنیا میں ہُنر چہرہ شناسی کا بہت ہے
ہو کوئی تو دل میں چُھپے غم پھولنے والا
آواز دبا دیتا ہے مُفلس کی ہمیشہ
میزان عدالت کا یہاں تولنے والا
مے وہ ہے جو بھٹکے ہُوؤں کو رستہ دکھاۓ
ہوتا نہیں میخار کبھی ڈولنے والا
چُپ کیوں ہے مجھے تخت پہ بیٹھا ہُوا پا کر
خستہ میری حالت پہ بہت بولنے والا
باقرؔ وہ خریدے گا کبھی سارے جہاں کو
صحرا میں چُھپے ہیرے گُہر رولنے والا
مُـــــــــــــرید بــــــــــــاقرؔ انصـــــــــــاری
.
.