کیسا پانی ہے کہ جس سنگ
بہہ رہے ہیں جسم و روح
نہ کوئی خیال ہے من میں
نہ ہی کوئی باقی ہے آرزو
اک بے جان سا جسم ہے
جس کو غسل ہوں دے رہی
تلاوت جاری ہے لبوں پر
زندگی کا سبق ہوں لے رہی
اس جہاں سے اُس جہاں کی
خاموشی سے جاری ہےگفتگو
ساتھ ساتھ لگ رہے ہیں
موت و زندگی ہمیں دو بدو
روح میں ٹھنڈ ک اُتار رہا
جسم ہے فقط جو خاک کا
دھواں ہو کہ رہ گیا ہے
دعویٰ سارا دل بےباک کا
آنسو انکھ میں جمے ہوئے
ہاتھ میرے کیوں سرد ہیں
باہر سارے منتظر کھڑے
گھرکے باقی جو فرد ہیں