غلط تھے وعدے مگر ميں يقين رکھتا تھا
وہ شخض لہجہ بڑا دل نشين رکھتا تھا
ہے تار تار مرے اعتماد کا دامن
کسے بتاؤں کہ ميں بھی امين رکھتا تھا
اتر گيا ہے رگوں ميں مری لہُو بن کر
وہ زہر ذائقہ بڑا انگبين رکھتا تھا
گُزرنے والے نہ يوں سرسری گُزر دل سے
مکاں شکستہ سہی، پر مکين رکھتا تھا
وہ عقلِ کُل تھا بھلا کس کی مانتا محسن
خيالِ خام پہ پختہ يقين رکھتا تھا