غم نہ کھا کہ یہ آدمی کو کھاتا ہے
منزل دور ہے اور دل اڈا جاتا ہے
اعتبار نہ سبھی پہ کہ پچھائے گا تو
یہاں ہر کوئ کہاں وعدے اپنے نبھاتا ہے
ہے سرائے یہ ہر کوئ آتا جاتا ہے
ہے آج کون یہاں اور کل کون آتا ہے
زمانے بھر کی خوشیاں دیدے پل میں کوئ
آکے زندگی میں کوئ عمر بھر رلاتا ہے
وہ تو چھہڑ گئے تمہیں اور دنیاں کو
رہا اب کوئ نہیںنخرے جو ترے اٹھاتا ہے
گڑر جکا میں زندگی کے نشیب و فراز سے
اب کوئ کیوں مجھے جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے
اب تو بس یاد کر اس ذات پاک کو احمد
غم اگر دیتا ہے تو خوشیاں وہی دکھاتا ہے