غم اتارا گیا سبھی کے لیے
اشک اترے ہیں آدمی کے لیے
اک تجلی مجھے عنایت ہو
میری آنکھوں کی روشنی کے لیے
جی کے لگتا نہیں مناسب ہے
زندگی لفظ زندگی کے لیے
بار ہوتا رہا کسی کے سپرد
شکر کرتا رہا کسی کے لیے
میں نے حد درجہ کوششیں کر لیں
دل بنا ہی نہیں خوشی کے لیے
کچھ درندے بھی جانے جاتے ہیں
اپنی انسان دوستی کے لیے
سب نہیں جانتے یہ وہ در ہے
یوں تو دروازہ ہے سبھی کے لیے
اس نے بادل ہٹا لیے عامرؔ
چند لمحوں کی چاندنی کے لیے