غم امڈتے ہیں
آنسو ڈھلکتے ہیں
موسموں کی طرح
رشتے بدلتے ہیں
خوشیوں کے بیوپاری
رنجور کرتے ہیں
ہاتھ چومنے والے
سانپ سا ڈستے ہیں
بچھڑے ہوئے یہاں
پھر کب ملتے ہیں
جو بھی گزرتی ہے
وہ بیان کرتے ہیں
حبیب سہارا دوسروں کا
کہیں ابلیس بنتے ہیں