خزاں میں بہار کے نشاں ڈھونڈتا ہوں
یزداں کا مارا ہوں ‘ یزداں ڈھونڈتا ہوں
بکھر گیا ہے جو آشیاں ‘ ڈھونڈتا ہوں
انہی جلتے شراروں کا سماں ڈھونڈتا ہوں
میرے تبسم کے پردہ میں ہزار پردے
تیر جس سے چلا وہ کماں ڈھونڈتا ہوں
لوگ آرزوؤں کی اپنی تکمیل ڈھونڈتے ہیں
میں دل میں کوئی اپنے ارماں ڈھونڈتا ہوں
بازار میں دیکھو تو سنگ بہت سستے
میں کیوں پھر وہی سنگ آستاں ڈھونڈتا ہوں
سکھ چین دیا تھا ‘ درد لیا ہے
اسی درد کا اب درماں ڈھونڈتا ہوں
غم دوراں کے نہلے پہ غم جاناں کا دہلا
اس میں خدائی رمز نہاں ڈھونڈتا ہوں