آ کے پیام شوق سنائے کوئی مجھے
غم سے مرے نجات دلائے کوئی مجھے
کوئی سنائے دل کے لبھانے کو کوئی بات
اس حال میں اے کاش ہنسائے کوئی مجھے
بیٹھا ہوں لے کے انکے خیالات دلفگار
صحرا سی زندگی میں ملائے کوئی مجھے
آتے ہیں چشم تر میں وہ تصویر غم بنے
کس حال میں ہیں اب وہ بتائے کوئی مجھے
کوئی تو آج مجھ کو بچائے عذاب سے
اب کون دے گا ساتھ بتائے کوئی مجھے
گر اور کچھ نہیں تو سنے داستان غم
دو لفظ دل جمعی کے سنائے کوئی مجھے
طاہر میں وہ دیا ہوں بجھایا گیا جو رات
اے کاش پھر سے یونہی جلائے کوئی مجھے