زندگی سے نباہ کر لیں گے
ضبطِ غم بے پناہ کر لیں گے
کیا خبر تھی کہ دل کے ہاتھوں ہم
اپنی حالت تباہ کر لیں گے
شکوہ سنجی عبث ہے اُن کے حضور
زیرِ لب آہ آہ کر لیں گے
گر ہیں خوشیاں نہیں مقدر میں
غم سے ہی رسم و راہ کر لیں گے
ڈھال کے حالِ دل کو شعروں میں
اپنے غم کا گواہ کر لیں گے