نہ تو ملی خاموشیاں اور نہ ہی شہنائی مُجھے
تھا کل بھی ہے اور آج بھی احساس تنہائی مُجھے
دیکھو زرا تُم ظلم کی یہ کس قدر ہے انتہا
میرا جلا کے گھر بنایا پھر تماشائی مُجھے
ان خلوتوں میں گُھٹ رہا ہے دم میرا کچھ ساتھ دو
انجان ہوں نادان ہوں کچھ دو شناسائی مُجھے
ہنسنا پڑے رونا پڑے ہر حال میں جی لیں گے ہم
اتنی گُزارش ہے میری اب دو نہ رُسوائی مُجھے
ہیں ہر قدم پر ٹھوکریں بس مل رہی ہیں نفرتیں
تقدیر یہ میری ہے کہ چا ہت نہ راس آئی مُجھے